Posts

آنکھیں بولتی ہیں

  ہر عضو کی کوئی نہ کوئی ڈیوٹی ہے وہ ادا کر رہا ہے ہاتھ جو کام کرت ہیں وہ کان نہیں کر سکتے کان جو کام کرتے ہیں وہ ناک سے صادر نہیں ہو سکتے اور زبان سے جو بات کلام گفتگو کر سکتے ہیں وہ اور عضو سے نہیں ہو سکتی اسی طرح آنکھ صاحبہ کی کیا بات ہے آنکھ بسااوقات وہ کام کر جاتی ہے جو سارے اعضا مل کر بھی نہیں کر سکتے۔۔ ‏لب نہیں اُس کی آنکھ بولتی ہے، ایسا اندازِ گفتگو توبہ۔۔ آپ نے غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زبان تو بولنے اور اظہار کے لئے دی ہے لیکن زبان کے علاوہ انسانی جسم کے دو بے زبان حصے سب سے زیادہ بولتے ہیں اول آنکھیں دوم ہاتھ..... آنکھوں کی اپنی زبان ہے، اظہار اور پیغام رسانی کا اپنا انداز اور طریقہ ہے اور آنکھیں اگر دیکھنے والے کے دل میں گلاب کھلا جاتی ہیں، محبت کے دیپ جلا جاتی ہیں، امید کی شمع روشن کر جاتی ہیں تو کبھی کبھی دیکھنے والے پر پتھر برسا کراسے زخمی، مایوس، ناامید اور خزاں رسیدہ پھول کی مانند مسل بھی دیتی ہیں۔ اسی لئے تو میں یہ کہتا ہوں کہ آنکھیں بولتی ہیں اور وہ بعض اوقات چند لمحوں میں وہ پیغام دے جاتی ہیں، وہ بات کہہ جاتی ہیں جو زبان سے ادا کرنے میں برسوں بھی لگ سکتے ہیں۔ آنکھوں

حضرت قاسمی الغزالی

  پوسٹ ڈلیٹ نہیں ہوگی حضرت قاسمی۔۔۔۔آپ ہمارے لئے آفتاب وماہتاب ہیں ۔۔۔آپ ہی کے دم سے روشن ہے الغزالی ،،، اس چمن کے آپ ہی گلاب ہیں۔۔ آپ کے حسن کی حکایت ہمارے عشق کا فسانہ۔۔۔آپ ہی فلک ہمارے ماہ انجم آپ ہیں برستا ہے کیف وسرور آپ کے لفظوں سے ۔۔۔۔ آپ ہی سوال آپ ہی ہمارا جواب ہیں ہمیں چاک جیب ودامن سے نہیں مناسبت کچھ ،،،، ہم تو راہی عشق ہیں آپ ہی انتخاب ہیں دل کو مٹا کر آپکے عشق میں پھر دل کو نہیں دیکھا۔۔۔کیونکہ خواب آپ ہیں آپ ہی تعبیر خواب ہیں گجرا یہ لفظوں کا حضرت قاسمی کے لئے کیا ہے تیار۔۔۔۔۔ جلوہ ریز ہے آپکی محبت ہم سب فیضیاب ہیں  

خانقاہ اور مسجد نورالحسن انور نقشبندی چشتی

  بنی اسرائیل میں جن لوگوں نے رہبانت اختیار کی وہ آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں سھراوں میں جا ٹھرے اور جھونپڑوں میں رہتے رہے یہں وہ اذکار ومراقبے کرتے اس تنکوں سے بنی جگہ کو خانہ کاہ کہا جاتا پھراسے خانقاہ کہا جانے لگا حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ نے بہت سے صوفیاء کے بارے میں لکھا ہے وہ خانقاہوں میں رہتے تھے آپ عبدالواحد صوفی کے متعلق لکھتے ہیں ثم توفی شیخا کبیرا بعد ان اقام بخانقاہ السمیساطیہ ( البدایہ 158 جلد 13) معلوم ہوا خانقاہ کالفظ ان ادوار میں غیر معروف لفظ نہ تھا ۔۔ دور اسلام میں جولوگ صفائی باطن میں لگے اور بطور صوفی معروف ہوئے انہوں نے اپنے اذکار ومراقبات کے لئے خانقاہیں بنائیں ان روحانی مراکز کو رباط ( سرائے ) بھی کہا جاتا کبھی انہیں تکیہ بھی کہا جاتا ھو ما یبنی لسکنی فقراء الصوفیہ ویسمی الخانقاہ والتکیہ ( ردالمحتار 615 جلد1) جہاں صوفی فقرا ٹھرتے اسے خانقاہ اور تکیہ بھی کہا جاتا اب سوال یہ ہے خانقاہیں مساجد سے علیحدہ کیوں بنائی گیئں اصل بات یہ بسااوقات سالکین کی تربیت میں وہ انداز بھی اختیا ر کرنا پڑتا ہے جو احکام مسجد کے خلاف ہوتا ہے اسلے صوفیہ نے ان خانقاہوں کو قلبی تزکیہ کی تعلیم

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ

  مدینہ کے درودیوار چمک اٹھے جب حسن کاءنات فخر کائنات جان کائنات محبوب کل ٖ فخر رسل امام الا نبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم کا ورود ہوا انصار کے مرد وزن نے پھر آپ کی جود وکرم کی نوازشات کی برکھا برستی دیکھی جہاں مرد حضرات محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آگے بڑھے ہوئے تھے اسی طرح انصار کی عورتیں اپنے حسن سخاوت وضیافت میں ایک دوسرے آگے نکلنے کی کوشش کرتیں ان سلیم الفطرت جود وسخا کی خوگر صحابیات میں ایک النوار بنت مالک بن صرمۃ النجاریۃ الانصاریہ بھی تھیں ۔۔۔۔ انکی شادی ثابت بن ضحاک سے ہوئی جن سے ایک بیٹا ز ید بن ثابت پیدا ہوئے ثابت جنگ بغاث میں قتل ہوئے حضرت زید کی عمر اسوقت 6 سال تھی النوار بڑی دانشمند درست راے بہتر مشورہ دینے کے حوالے سے معروف ومشہور تھیں سفیر اسلام حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ آے تعلیم اسلام کو عام کیا یہ مہک قرآن وایمان والی النوار تک پہنچی ۔۔ تو صحیح سمت سفر شروع کیا ایما قبول کر کے کامیابی کی منازل طے کرلیں ۔۔۔ ایمان کی حلاوت ہی ایسی ہے جو انسان کے دل ودماغ کے تمام بند د ریچے کھول دیتی ہے ۔۔ اسے اپنے سانسوں میں جنت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے اسکے احساسات وجذبات وسوچ
Image
 

امام زین العابدین رحمۃ اللہ

  یرانی بادشاہت کی تاریخ کا آخری صفحہ بھی لپیٹ دیا گیا ایرانی بادشاہ قتل ہوا اسکے جر نیل اہل خانہ مسلمانوں کے ہاتھوں قیدی بن گے مال غنیمت کو سمیٹ کر مدینے لایا گیا ان قیدیوں میں یزدگر کی تین بیٹیاں بھی تھیں وہ بلا شبہ حسن وجمال کا پیکر ۔ پری رخ ۔ دوشیزائیں تھیں جب انکی فروخت کی باری آئی تو انکی نظریں جھکی ہوئیں تھیں حسرت ویاس کی وجہ سے انکی غزالی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے انہیں دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر کی خدمت میں عرض کی امیر المومنین بادشاہ کی بیٹیوں سے امتیازی سلوک ہو نا چاہئے ۔، حضرت عمر نے فر مایا اسکی کیا صورت ہوگی آپ بتائیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بولے انہیں اختیا ر دیں جسکے سر پر ہاتھ رکھ دیں وہ ہی ان کا مالک کہلاے گا ۔۔ ان میں سے ایک نے حضرت عبداللہ بن عمر دوسری نے حضرت محمد بن ابو بکر تیسری نے حضرت حسین کو پسند کر لیا رضی اللہ عنھم ۔۔ تھوڑے ہی عرصے بعد دلی رغبت سے مسلمان ہو گیئں غلامی سے آزادی مل گئی لونڈی سے بیوی بن گیئں ماضی کی تمام شرکیہ یادیں یکسر بھلادیں اپنا نام غزالہ رکھ لیا اللہ نے ایک چاند سا بیٹا عطا کیا جسکا نام دادا علی رضی اللہ عنہ کے نام پر علی ہی ر

بھوک میں کوئی کیا بتلاے ۔۔۔ اخلاق

  بھوک میں کوئی کیا بتلاے کیسا لگتا ہے سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی تحفہ لگتا ہے یہ تو کھلونے والے کی مجبوری ہے ورنہ کس بچہ کا رونا اس کو اچھا لگتا ہے جب سے چھوڑ دیا ہے پیسہ دو پیسہ لینا اب تو بھکاری بھی کچھ عزت والا لگتا ہے یارو اس کی قبر میں دو روٹی بھی رکھ دینا مرنے والا جانے کب کا بھوکا لگتا ہے محلوں کے گن گاتا بھی تو کیسے اے اخلاقؔ تو تو پیارے فٹ پاتھوں کا راجہ لگتا ہے